Agar hai ishq dunya me to phir be khudi kia hai by Allama Iqbal
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhLD75erYe4y3zXq2E6edSXIezmuYOAUJaxmv7EJ6KQA3aFSbY5R_2Sba76zC3rs_dtSsjyFCTexefHFOb8Lf3io6BL4pYRFXkKb9ZZf5yF8odHO_72Cr-jJztotAnb8RkH7leMiJZs3Xca/s0/images+%252820%2529.jpg)
گر ہے عشق دنیا میں تو پھر بیخودی کیا ہے گر ہے عشق دنیا میں تو پھر بیخودی کیا ہے جو کی تم نے وفا درویش پھر ہوتی جفا کیا ہے ہے میرے چار سُو مکرو فریب کے ہُنر ذادے میں ہوں جِس دَور کا انسان اُسکی کیمیا کیا ہے بُرائی خون میں شامل تو ہے کردار منافق مجھے حرام سے رغبت اگر ہے تو بُرا کیا ہے میری اوقات مِٹّی ہے میری پیدائش ہے نُطفہ خطا کا میں اگر پُتلہ تو پھر میری خطا کیا ہے مجھے لگتا ہے یہ مشکل خودی کو جان پاؤں میں نہ میں یہ جان پایا ہوں مقامِ کبریا کیا ہے میرا یہ حال دیکھ کر بتاؤ اب خرد مندوں اگر یہ ابتداء ہے تو بدِی کی انتہا کیا ہے مقامِ عشق چاہتا ہوں مگر اقبالؒ جیسا کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے