Wo meri ankhon ke ley nam hai by param allahbadi
وہ آنکھ میرے لیے نم ہے
وہ آنکھ میرے لیے نم ہے کیا کیا جائے
اسے بھی آج مرا غم ہے کیا کیا جائے
ترے بغیر کہیں میرا جی نہیں لگتا
ترے بغیر یہ عالم ہے کیا کیا جائے
سحر قریب ہے اب کیا وہ آئیں گے ملنے
امید وصل بہت کم ہے کیا کیا جائے
خطا معاف خطائیں تو ہم سے ہوں گی ضرور
کہ یہ تو فطرت آدم ہے کیا کیا جائے
الٰہی اب کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
مریض ہجر لب دم ہے کیا کیا جائے
وہ مجھ سے ملنے کو آئے ہیں میری موت کے
بعد
خوشی بھی میرے لیے غم ہے کیا کیا جائے
برستے رہتے ہیں دن رات ہجر میں پرنمؔ
یہ حال دیدۂ پر نم ہے کیا کیا جائے
پرنم الہ آبادی۔
Comments
Post a Comment