Teri Khushboo Ka Pata Karti Hain By Parveen Shakir
تیری خوشبو کا پتا کرتی ہے
تیری خوشبو
کا پتا کرتی ہے
مجھ پہ احسان
ہوا کرتی ہے
چوم کر پھول
کو آہستہ سے
معجزہ باد صبا
کرتی ہے
کھول کر بند
قبا گل کے ہوا
آج خوشبو کو
رہا کرتی ہے
ابر برستے تو
عنایت اس کی
شاخ تو صرف
دعا کرتی ہے
زندگی پھر سے
فضا میں روشن
مشعل برگ حنا
کرتی ہے
ہم نے دیکھی
ہے وہ اجلی ساعت
رات جب شعر
کہا کرتی ہے
شب کی تنہائی
میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے
رہا کرتی ہے
دل کو اس راہ
پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ
سے جدا کرتی ہے
زندگی میری
تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں
رہا کرتی ہے
اس نے دیکھا
ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال
کہا کرتی ہے
مصحف دل پہ
عجب رنگوں میں
ایک تصویر بنا
کرتی ہے
بے نیاز کف
دریا انگشت
ریت پر نام
لکھا کرتی ہے
دیکھ تو آن
کے چہرہ میرا
اک نظر بھی
تری کیا کرتی ہے
زندگی بھر کی
یہ تاخیر اپنی
رنج ملنے کا
سوا کرتی ہے
شام پڑتے ہی
کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں
صدا کرتی ہے
مسئلہ جب بھی
چراغوں کا اٹھا
فیصلہ صرف ہوا
کرتی ہے
مجھ سے بھی
اس کا ہے ویسا ہی سلوک
حال جو تیرا
انا کرتی ہے
دکھ ہوا کرتا
ہے کچھ اور بیاں
بات کچھ اور
ہوا کرتی ہے
Comments
Post a Comment