ضروری تو نہیں کہ
اُس سے بات کی جائے
اُس سے نفرتوں کی
شکایت کی جائے
گر ہے وہ بہت خوش
تو بھلا کیوں اُس سے
مسکراہٹوں کی وجہ پوچھی جائے
وہ یوں ہی رہے سدا
خان کیوں نہ دُعا کی جائے
مجھے تم یاد آتی ہو مقدر کے ستاروں پر زمانے کے اشاروں پر اداسی کے کناروں پر کبھی ویران صحرا میں کبھی سنسان راہوں میں کبھی حیران آنکھوں میں کبھی بے جان لمحوں میں تمہاری یاد ہولے سے کوئی سرگوشی کرتی ہے یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں دو آنسو ٹوٹ گرتے ہیں میں پلکوں کو جھکاتا ہوں بظاہر مسکراتا ہوں فقط اتنا ہی کہتا ہوں مجھے کتنا ستاتی ہو مجھے تم یاد آتی ہو مجھے تم یاد آتی ہو ایم اے شاہ ہیر
چلو کچھ دیر چلتے ہیں محبت کی زمینوں پر جہاں پر چاند ہنستا ہو جہاں سورج دمکتا ہو جہاں پر بےطلب باتوں کے ٹوٹے کانچ کی نوکیں کہیں دل میں نہ چبھتی ہوں نہ کوئی آنکھ کا آنسو بھری مٹی میں گرتا ہو نہ کوئی درد دکھتا ہو نہ کوئی سوچ تپتی ہو جہاں ہر سو خوشی کے پھول کی خوشبو گلستاں میں مہکتی ہو چلو کچھ دیر چلتے ہیں محبت کی زمینوں پر...
الاؤ میں دھمال کر رہا ہوں میں الاؤ میں دھمال کر رہا ہوں میں اور آگ سے وصال کر رہا ہوں میں تجھے تو ہنس کے الوداع کہہ دیا اور اب جو اپنا حال کر رہا ہوں میں ؟؟ پتا بھی ہے نہیں سنے گی وہ، مگر پتا ہے ! پھر بھی کال کر رہا ہوں میں خدا کا شکر کر کہ تجھ سے دور ہوں ابھی ترا خیال کر رہا ہوں میں علی غزل میں دستخط تھا عشق کا وہ دستخط بحال کر رہا ہوں میں !
Comments
Post a Comment