Ruksat hua to ankh mila kar nahi gaya by Parveen Shakir




رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا 

رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا

وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی

احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا

جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اک لکیر کھینچ  گیا درمیان میں

دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط

وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی

لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا

تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد

جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے

اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی

وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا

یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے

جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

 پروین شاکر


Comments

Popular posts from this blog

Mjhe tum yaad aati ho by m.a shaheer

Chalo Kuch Dair Chalty Hain. چلو کچھ دیر چلتے ہیں

Alao me dhamal kar raha ho me by Ali Zaryoun