Palkon ki dehleez pe ek sitara tha by Amjad Islam Ajmad
پلکوں کی دہلیز پہ چمکا
ایک ستارا تھا
پلکوں کی دہلیز پہ چمکا ایک ستارا تھا
ساحل کی اس بھیڑ میں جانے کون ہمارا تھا
کہساروں کی گونج کی صورت پھیل گیا ہے وہ
میں نے اپنے آپ میں چھپ کر جسے پکارا تھا
سر سے گزرتی ہر اک موج کو ایسے دیکھتے ہیں
جیسے اس گرداب فنا میں یہی سہارا تھا
ہجر کی شب وہ نیلی آنکھیں اور بھی نیلی
تھیں
جیسے اس نے اپنے سر سے بوجھ اتارا تھا
جس کی جھلملتا میں تم نے مجھ کو قتل کیا
پت جھڑ کی اس رات وہ سب سے روشن تارا تھا
ترک وفا کے بعد ملا تو جب معلوم ہوا
اس میں کتنے رنگ تھے اس کے کون ہمارا تھا
کون کہاں پر جھوٹا نکلا کیا بتلاتے ہم
دنیا کی تفریح تھی اس میں ہمیں خسارا تھا
جو منزل بھی راہ میں آئی دل کا بوجھ بنی
وہ اس کی تعبیر نہ تھی جو خواب ہمارا تھا
یہ کیسی آواز ہے جس کی زندہ گونج ہوں میں
صبح ازل میں کس نے امجدؔ مجھے پکارا تھا
امجد اسلام امجد
Comments
Post a Comment