Ek shoq sa larka by Asim Nisar
اک شوخ سا لڑکا
اک شوخ سا
لڑکا غم سے انجان ہوا کرتا تھا
یاد ہے نا
تمہیں وہ نادان ہوا کرتا تھا
تم کو ہی
ڈھونڈتا تها ہر جگہ
تم جو
کبھی نظر نہ آو تو پریشان ہوا کرتا تھا
ہنسی خوشی
اپنی زندگی گزارا کرتا تها
اکثر بے
خودی میں تمہیں پکارا کرتا تھا
سجها کر
نام تمہارا اپنے بخت سنوارا کرتا تها
جیت تهی
مقدر اس کا وہ کبھی نا ہارا کرتا تھا
پهر یوں
ہوا اس کا دل تم توڑ دیا
اسے وفا
کی راہوں میں تنہا چھوڑ دیا
اس کی
جانب جاتے ہوئے قدموں کو موڑ دیا
غموں سے
اس کا رشتہ جوڑ دیا
پهر وہ گم
سم سا رہتا تھا
کسی سے
کچھ نہ کہتا تھا
اس کی
آنکھوں سے اشکوں کا دریا بہتا تها
اداس
پهرتا تها تنہا ہر غم سہتا تها
پهر اہل
شہر اس کے حال سے ڈرتے تھے
ان پر نہ
آئے کبھی زوال سے ڈرتے تهے
وہ کون
تها کیا تها ایسے سوال سے ڈرتے تهے
سوچ کر
اسے اس کے ہر خیال سے ڈرتے تهے
پهر خدا
جانے وہ کدھر گیا ہے
ان بستیوں
کو ویران کر گیا ہے
لوٹ ہی
آئے گا وہ کہیں اگر گیا ہے
عین ممکن
ہے کہ وہ مر گیا ہے
عاصم نثار
Comments
Post a Comment