Ek pal me zindagi bhar ki udaasi de gaya by Mohsin Naqwi



ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا

نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس
زرد موسم بانجھ رت کو بے لباسی دے گیا

صبح کے تارے مری پہلی دعا تیرے لیے
تو دل بے صبر کو تسکیں ذرا سی دے گیا

لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے
زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا

تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں
اک دیا اندھی ہوا کو خود شناسی دے گیا

لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں
اس کے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا

محسن نقوی

 


Comments

Popular posts from this blog

Mjhe tum yaad aati ho by m.a shaheer

Chalo Kuch Dair Chalty Hain. چلو کچھ دیر چلتے ہیں

Alao me dhamal kar raha ho me by Ali Zaryoun