Aur phir ek din apni mulaqat hui
اور پھر ایک دن اپنی ملاقات ہوئی
اور پھر ایک دن اپنی ملاقات ہوئی
کچھ اس طرح سے شروع بات ہوئی
وہ کہتی ہے تمہاری آنکھوں میں ویرانی کیوں
ہے
میں کہتا ہوں خواہشوں کے قبرستان ویران
ہوتے ہیں
وہ کہتی ہے تم اتنے خاموش کیوں رہتے ہو
میں کہتا ہوں خاموشی میں چھپے طوفان ہوتے
ہیں
وہ کہتی ہے کیا اب بھی بارش میں بھیگ جاتے
ہو
میں کہتا ہوں میں اب اشکوں کی بارش میں میں
بھیگتا ہوں
وہ کہتی ہے کیا اب بھی مجھے یاد کرتے ہو
میں کہتا ہوں تیری یاد سے میری سانسیں چلتی
ہیں
وہ کہتی ہے کیا اب بھی میرے خواب دیکھتے ہو
میں کہتا ہوں میں مدت سے سویا نہیں ہوں
وہ کہتی ہے اب بھی وہ بے خودی ہنستے ہو
میں کہتا ہوں مجھے رونے سے فرصت نہیں ہوتی
وہ کہتی ہے اتنی محبت کیوں کرتے ہو اب بھی
میں کہتا ہوں جو مٹ جائے وہ محبت نہیں ہوتی
وہ کہتی ہے یوں نہ خود کو برباد نہ کرو
میں کہتا ہوں جو مٹ جائے وہ کہاں آباد ہوتے
ہیں
پهر وہ نم آنکھوں سے کہتی ہے ..اپنا خیال
رکھنا
میرا ضبط ٹوٹ جاتا ہے ..آنکھوں سے اشکوں کا
دریا چھوٹ جاتا ..
میں چا کر بھی کچھ بول نہیں سکتا ...کچھ
بول نہیں سکتا
Comments
Post a Comment