Anjan to na tha by Farooq
انجان تو نہ تھا
دِل کے معاملات سے ، انجان
تو نہ تھا
اِسی گھر کا فرد تھا ،
کوئی مہمان تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اُسے
، نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا مجھے ،
نادان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ھے ، کیسے کٹا
یہ نہ پوچھیے ؟؟
یارو !! سفر حیات کا آسان
تو نہ تھا
نیلام گھر بنایا نہیں اپنی
ذات کو
کمزور اس قدر ، میرا ایمان
تو نہ تھا
تھیں جن کے دَم سے رونقیں
، شہروں میں جا بسے
ورنہ ھمارا گاؤں ، یوں
ویران تو نہ تھا
رسماً ھی آ کے پُوچھتا
، فاروق حالِ دل
کچھ اِس میں اُس کی ذات
کا ، نقصان تو نہ تھا
Comments
Post a Comment