Aaj Ki Shab To Guzar Jae Gi By Parveen Shakir
آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی
آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی
رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی
میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کچھ ہے ابھی
تیری آواز کا جادو ہے ابھی میرے لیے
تیرے ملبوس کی خوشبو ہے ابھی میرے لیے
تیری بانہیں ترا پہلو ہے ابھی میرے لیے
سب سے بڑھ کر مری جاں تو ہے ابھی میرے لیے
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کچھ ہے ابھی
آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی!
آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہوگا
عشق حیراں ہے سر شہر صبا کیا ہوگا
میرے قاتل ترا انداز جفا کیا ہوگا!
آج کی شب تو بہت کچھ ہے مگر کل کے لیے
ایک اندیشۂ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد
رنگ امید کھلے گا کہ بکھر جائے گا
وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا
جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا
خواب کا شہر رہے گا کہ اجڑ جائے گا
Perveen Shakir
Comments
Post a Comment