Aadhori Chahat by Syed Ali Abbas Kazmi
ادھوری چاہت
کہیں تو اک
کمی سی ہے
کیوں آنکھ
میں نمی سی ہے ؟
کہیں کھو گیا
ہے دل ربا
کیوں ہوش سا
ہے بافتہ ؟
کہیں دل میں
ہے میرے کسک
کیوں لے گیا
وہ دل میں شک ؟
کہیں تو مجھ
سے پوچھتا
کیوں بے وجہ
سا کوچ تھا ؟
کہیں تو وہ
شہر بدر ہوا
کیوں وہ یوں
در بدر ہوا ؟
کہیں جو تھی
اُسے رنجش
کیوں لے گیا
دل میں خلش ؟
کہیں تو مجھ
سے روٹھ گیا
کیوں وہ مجھ
سے چھوٹ گیا ؟
کہیں ختم ہوں
اس کی ہجرتیں
کیوں نہ یاد
آئیں میری قربتیں ؟
کہیں جو ہے
دل میں اضطراب
کیوں یاد کا
ہے اس کی عذاب ؟
کہیں یاد آئے
میرا عشق سا
کیوں روئے
پھر وہ بے بہا ؟
کہیں تو اُس
کو ملال ہو
کیوں نہ وہ
غم سے نڈھال ہو ؟
کہیں تو چاک
یہ بھید ہو
کیوں نہ ناز
میں چھید ہو ؟
کہیں تو ٹوٹے
میری یاس
کیوں نہ آجائے
میرے پاس ؟
کہیں تو دِکھ
جائے دلبری
کیوں نہ ہو
جائے مخبری ؟
کہیں تو دل
کو قرار ہو
کیوں نہ فقط
بس یار ہو ؟
کہیں پے ہو
احساس لمس
کیوں نہ کروں
میں اس کو مس
کہیں تو راز
الفت دوام ہو
کیوں نہ شراب
کا جام ہو ؟
کہیں جو اُسے
بے ہوش ملوں
کیوں نہ راہ
پے مدہوش ملوں ؟
کہیں تو مجھ
کو نصیب ہو
کیوں نہ میرے
قریب ہو ؟
کہیں تو قدموں
کی چاپ ہو
کیوں نہ ہمارا
ملاپ ہو ؟
کہیں تو مجھ
سے گلہ کرے
کیوں نہ مجھ
سے ملا کرے ؟
کہیں تو سب
کچھ بھلا لے
کیوں نہ وہ
گلے سے لگا لے ؟
کہیں ختم ہوں
میری سسکیاں
کیوں نہ آئیں
پھر سے ہنسیاں ؟
کہیں ہوتی
خواہش پوری ہے
کیوں ہوتی
خواہش ادھوری ہے؟
کہیں تو اک
کمی سی ہے
کیوں آنکھ
میں نمی سی ہے ؟
سید علی عباس
کاظمی
Comments
Post a Comment